صدائیں دیتا ہے کوئی ہر آن خالی کر
یہ خستہ حال پرانا مکان خالی کر
زمانہ نت نئے اسلوب کی تلاش میں ہے
تُو اپنے رسمِ کہن کی دکان خالی کر
کنارہ تو نہیں، گرداب اپنی منزل ہے
ہوا نکال دے، اب بادبان خالی کر
تُو کس کی گھات میں بیٹھا ہے، اپنی خیر منا
الٹنے والی ہے تیری مچان، خالی کر
نشانہ چُوک نہ جائے لرزتے ہاتھوں سے
اچھال تیر کماں سے، کمان خالی کر
نویدِ صبحِ یقیں کوئی دے گیا مشتاق
سو اب علاقہء وہم و گمان خالی کر
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...